Wafa by Laraib Iqra Complete Novel

Wafa by Laraib Iqra Complete Novel. Get daily Best Urdu novel pdf Free Urdu Summaries and any romance novel upload. This Novel Loads on this page Urdu Summaries, Magazines, Jasoosi Novels, Social Books, Urdu Novels, Academic Books, Khaufnak Novels, and all reasonably Urdu books. Welcome to our website We hope you are well We have created a very nice and easy-to-navigate website for your convenience. We hope you like our website. If you like our website, please share it with others.

Wafa by Laraib Iqra

Wafa by Laraib Iqra

Free download all kinds of the latest romance novels in Urdu. This site is only for Urdu Novel and Digest. Urdu Kitab is the number 1 site for novels and summaries in the world. This site is user-friendly. This is a World Press website and it is easy to open for mobile users. Your website is easy to use for any browsing device and MObile in WOrld. This website has 2000 best Urdu novels on the site.

Urdu literature (Urdu: ادبیات اردو, “Adbiyāt-i Urdū”) is literature in the Urdu language. While it tends to be dominated by poetry, especially the ghazal غزل and nazm نظم verse forms, it has expanded into other styles of writing, including that of the short story or afsana افسانہ. Urdu literature is most popular in Pakistan, where Urdu is the national language, and in India, where it is a recognized language. It is also widely understood in Afghanistan and is moderately popular in Bangladesh.

ناول،
وافا❤️
اذ،
لاریب اقراء ✍
قسط، 1

کمرہ نیم تاریک اور سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا ۔مہنگے کلون کی خوشبو تمباکو کی مہک کے ساتھ مل کر ماحول پر عجیب سا سحر طاری کر رہی تھی ۔ٹیبل لیمپ کی مدھم کی گئی روشنی کمرے کی تاریکی کو شکست دینے میں ناکام ہو رہی تھی ۔ کھڑکی کے پاس آرام دہ کرسی پر جھولتا وجود اسی پراسرار ماحول کا حصہ لگ رہا تھا ۔ وہ آنکھیں بند کئے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا ۔پاس پڑے ایش ٹرے میں موجود کئی ادھ جلے سگریٹ اس بات کا ثبوت تھے کہ یہ مشغلہ کافی دیر سے جاری ہے ۔ ماحول کے طلسم کو دروازہ کھلنے کی آواز نے توڑا ۔
“آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟” ایک نسوانی آواز نے کمرے کے سکون کو بے سکون کیا۔
“ہمم ” وہ چونکا “ہاں ٹھیک ہوں ” اس نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلا
“اتنی سموکنگ کیوں کر رہے ہیں ” اس کے لہجے میں تشویش تھی “کوئی پرابلم ہے کیا ”
“نہیں ۔۔۔بس یونہی ۔۔۔۔”شیران نے بات کو ٹالا “ہادی سو گیا ہے کیا ”
“جی سو گیا ہے ” وہ اس کے جواب سے مطمئن تو نہ ہوئی مگر جانتی تھی کہ مزید کریدنا بھی فضول تھا ۔سو خاموشی سے دروازے کی طرف مڑ گئی ۔
“صبا ” شیران کی آواز نے اسے روکا ۔وہ پیچھے مڑ کر اسے دیکھنے لگی ۔
“تم سو جاؤ ۔میں آج رات ادھر سٹڈی میں ہی ہوں ” وہ “جی بہتر ” کہہ کر نکل گئی اور شیران ایک بار پھر خیالوں کی دنیا میں لوٹ گیا ۔
______
یہ صبح بھی بہت سی عام صبحوں جیسی ہی تھی ۔وہ تیار ہو کر ٹیبل پر آیا تو صبا کافی کا مگ ہاتھ میں لیے اس کے انتظار میں تھی ۔ شیران نے کافی کا مگ اس کے ہاتھ سے لیا اور تھینکس کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔صبا نے ایک لمبا سانس ہوا میں خارج کیا اور چائے کا کپ اٹھا کر ادھر ہی بیٹھ گئی ۔ہادی ابھی سو رہا تھا ۔اس لیے وہ آرام سے چائے پینے میں مصروف ہو گئی۔۔ اس کا دھیان ابھی بھی شیران کی طرف تھا ۔ ان کی شادی کو چار سال گزر چکے تھے ۔مہر ہادی بھی چھ ماہ کا ہو چکا تھا ۔شیران اپنی تمام تر ذمہ داریاں بہت اچھے سے نبھا رہا تھا ۔گھر میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں تھی ۔صبا کو کوئی روک ٹوک نہ تھی ۔گھر ، گاڑی ، پیسہ ، اولاد ، شوہر سب کچھ تھا اس کے پاس ۔۔۔۔۔پھر بھی ایک کمی تھی جو اس کی تمام آسائشوں کو پس پشت ڈال دیتی تھی ۔جو مکمل دکھائی دیتے شیران کو ادھورا رکھتی تھی ۔اور اس کمی کا نام تھا دانین مصطفی ۔۔شیران جاہ کی دانین مصطفی ۔
“تم دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہو دانین ” صبا نے آنکھوں کی نمی کو پیچھے دھکیلتے ہوۓ سوچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سر آج شفقت سنز کے ساتھ آپ کی میٹنگ ہے ” ماڈرن سی سیکرٹری نے شائستہ لہجے میں بات کرتے ہوئے اسے آج کی مصروفیت بتائی ۔
“آج کوئی میٹنگ نہیں پلیز ۔سب کینسل کر دیں ” شیران نے فائلز کو سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا
“لیکن سر ” اس نے کچھ کہنا چاہا تو شیران نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کروا دیا
“مص افشین یو مے گو ناؤ ”
“یس سر ” وہ ڈائری اٹھا کر آفس سے نکل گئی ۔ شیران کلائی پر بندھی گھڑی میں کچھ کھوجنے لگ گیا ۔۔۔موبائل کی گھنٹی نے اس کا ارتکاز توڑا ۔اس نے نمبر دیکھ کر فون کان کے ساتھ لگا لیا ۔
“ہاں عثمان بولو ”
“یار کدھرہے تو فون بھی آف جا رہا تھا تیرا ۔” دوسری طرف عثمان شاہد تھا ۔شیران جاہ کا بہترین دوست اور ہمراز ۔جواس کے ایک ایک پل اور اذیت سے واقف تھا ۔
“گھر پہ ہی تھا ” شیران نے مختصر جواب دیا ۔
“شیری ۔۔۔دانین سے بات ہوئی کیا ” عثمان کو ایک سیکنڈ لگا اس کے اس موڈ کی وجہ تک پہنچنے میں ۔
“نہیں ۔۔۔۔دیکھی تھی کل ۔۔۔۔مال میں ” شیران جھوٹ نہ بول سکا ۔آواز سے صدیوں کی تھکن جھلک رہی تھی ۔
“میں آ رہا ہوں تیری طرف ” عثمان نے جواب کا انتظار کئے بغیر کال کاٹ دی ۔ شیران نے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور سن گلاسز اور سگریٹ اٹھا کر آفس سے باہر آ گیا ۔
عثمان اسے لے کر ایک کافی شاپ میں آ گیا تھا ۔وہ خاموش بیٹھا زمین کو دیکھ رہا تھا ۔عثمان نے اپنے سامنے بیٹھے بزنس کی دنیا کے اس آئیکون کو دیکھا جو اس وقت ایک ہارا ہوا کھلاڑی لگ رہا تھا ۔عثمان کو شیران جاہ بہت پیارا تھا ۔وہ کالج کے زمانے سے ساتھ تھے ۔گزرے ماہ و سال نے انہیں بہت قریب کر دیا تھا ۔اس وقت بھی وہ شیران کی حالت بخوبی سمجھ سکتا تھا ۔
“کس کے ساتھ تھی ” عثمان نے سکوت کو توڑا ۔
“اپنے بابا کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ شادی کی شاپنگ کر رہی تھی ” شیران کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی معلوم ہوئی ۔
“وہاٹ ؟؟؟ دانین کی شادی ؟ کس کے ساتھ؟ تمہیں کس نے بتایا ” عثمان کو جھٹکا لگا
“انکل نے بتایا تھا کل ادھر ہی ۔۔۔۔۔ اگلے ہفتے اس کی شادی ہے ۔۔۔۔تیمور کے ساتھ ”
“تیمور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہجہان گروپ والا ” عثمان ایک بار پھر حیرت زدہ ہوا
“ہاں وہی ۔۔۔۔۔۔میرا بزنس رائیول ” شیران نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا
“دانین کو سے سا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔ وہ شائد بدلہ لے رہی ہے ”
“ہاں شائد ۔۔۔۔۔ جو بھی ہے آئی وش ہر آ گریٹ لائف ” شیران نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ” اور اگر یہ بدلہ ہے نا عثمان تو دانین کو حق ہے وہ جس طرح چاہے شیران جاہ سے بدلہ لے سکتی ہے ۔”
“ہاں ۔۔۔۔غلطی تیری تھی ۔۔۔میں گواہ ہوں اس کی محبت کا اس کے خلوص کا ۔۔۔۔۔ مگر شیری تو کمزور پڑ گیا تھا ۔۔۔تو نے محبت کو مصلحت پر قربان کر دیا تھا ”
“وقت کا تقاضا یہی تھا ۔۔۔۔۔ تم نہیں سمجھو گے ۔۔۔۔ مجھے آفس ڈراپ کر دو ” شیران کہہ کر چل پڑا ۔عثمان کو بھی مجبورا اس کے پیچھے جانا پڑا ۔
_______
“دانین بیٹا ۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟ آپ کو ڈریس پسند نہیں آیا کیا ” پھپھو نے اس کے اترے ہوئے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔
“نہیں پھپھو ۔۔۔ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔میں نے خود ہے تو لیا ہے ” اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
“پھر مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ تم خوش نہیں ہو ” پھپھو اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پریشانی سے بولیں
“آپ کے لیے اور بابا کے لیے اداس ہوں ۔۔۔ ۔ ۔ میں کیسے رہوں گی ادھر ۔۔۔۔کسی کے گھر میں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو اپنے کمرے کے علاوہ کہیں اور نیند بھی نہیں آتی ” وہ رو دینے کو تھی
“اوہو ۔۔۔۔پھپھو کی جان اب وہ گھر تمھارا بھی ہے ۔۔۔۔تیمور بہت اچھا لڑکا ہے ۔بہت خیال رکھے گا تمہارا ۔ اور پھر کون سا تم دور جا رہی ہو ۔جب دل چاہے آ جانا ” انہوں نے دانین کو گلے لگا لیا ۔۔
_______
آج دانین مصطفی دانین تیمور ہونے جا رہی تھی ۔ سب بہت خوش تھے ۔پھپھو کی آنکھیں بار بار چھلک جاتیں ۔انہوں نے اسے ماں بن کر پالا تھا۔ دانین صرف ایک سال کی تھی جب شیریں مصطفی ایک کار حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے گزر گئی تھیں ۔ اور بہت پیاری سے دانین پھپھو کی گود میں آ گئی تھی ۔۔۔۔ مہر النسا بیگم کے اپنے دو بیٹے تھے ۔مہران اور ثوبان ۔۔۔ بیٹی کی خواہش انہیں شروع سے تھی جو الله پاک نے دانین کی صورت میں۔ پوری کر دی تھی ۔مصطفی صاحب نے سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی تھی ۔ ان کی زندگی ان کی بیٹی کے لیے ہی وقف تھی ۔
مہرالنسا ہر کام کو دیکھ رہی تھیں ۔ مہران اور ثوبان بھائی ہونے کا حق ادا کر رہے تھے ۔آج رات مہندی تھی ۔اور ساتھ ہی نکاح کا فرض بھی ادا ہونا تھا ۔ ہر طرف خوب رونق تھی ۔ انتظامات میں کسی قسم کی کسر نھیں چھوڑی گئی تھی ۔ دانین کی سہیلیاں صبح سے ہے آ گئی تھیں ۔اور ان سب ہنگاموں کے درمیان وہ کسی پتھر کی مورت کی طرح چپ بیٹھی تھی ۔ کوئی خالی پن اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔۔ آنسو کئی بار پلکوں کی باڑ توڑ چکے تھے اور وہ ہر بار اپنے گال بے دردی سے مسل دیتی تھی ۔
“میں نہیں یاد کر رہی تمہیں ۔ کوئی تعلق نہیں ہے ہمارا ” وہ خود کو بہت دفعہ یہ باور کروا چکی تھی ۔۔۔۔لیکن دل ماننے کو تیار ہی نہیں تھا ۔ وہ اٹھ کر الماری کی طرف آ گئی ۔ اور دھیان بٹانے کے لیے چیزوں کو الٹنے پلٹنے لگی ۔ اس کی نظر ایک پرانی ڈائری پر پڑی تو اس نے وہ اٹھا کر ورق گردانی شروع کر دی ۔اس کے ہاتھ ایک صفحے پر رک گئے ۔ تاریخ اور دن کے ساتھ ایک نوٹ لکھا تھا ۔
A great day with a greatest person…. Long walk , coffee n much more to remember”
دانین کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ وہ دن وہ کیسے بھول سکتی تھی ۔ اس دن اس نے اور شیران نے بہت باتیں کی تھیں ۔بہت سا وقت ساتھ گزارا تھا ۔ وہ بہت نٹ کھٹ سی کھل کر اظہار کر دینے والی لڑکی تھی ۔جبکہ شیران اس کے بر عکس تھا ۔ اپنے جذبوں کو آشکار نہ کرنے والا ۔دونوں کا ساتھ بھی ایک حیران کن واقعہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ شیران باتوں سے زیادہ عمل پڑ یقین رکھتا تھا اور دانین اظہار کو فرض سمجھتی تھی ۔ابھی بھی وہ اس نوٹ کے نیچے موجود شیران کے سائن دیکھ کر ضبط کھو بیٹھی تھی ۔ وہ بے اختیار ان سائن پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔
“میں آج بھی تمہاری دیوانی ہوں شیری ۔ آج بھی تمہاری ہوں ۔ صرف تمہاری دانین ” وہ کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اے شیران ۔۔۔ بات سنو نا ” وہ بے تکلفی سے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی
“جی بولیں ” شیران بغیر کوئی تاثر دیے بولا
“مجھے تم سے محبت ہے ۔۔۔۔بے شمار والی ” وہ ایسی ہی تھی ۔ کھل کر بول دینے والی ۔ شیران محض دیکھ کر رہ گیا ۔
“ڈرتے کیوں ہو ۔۔۔۔۔ قسم سے میرے کرنے والے کام تم کرتے ہو اور پھر مجبورا تمہارے کرنے والے کام مجھے کرنے پڑ جاتے ہیں ” وہ ایک آنکھ دبا کر شرارت سے بولی ۔ شیران نے اسے خفگی سے گھورا ۔
ہادی کے رونے کی آواز اسے حال میں کھینچ لائی ۔ اس نے لمبا سانس لیا اور اٹھ کر ہادی کے پاس آ گیا جو کھلونا ہاتھ سے گر جانے کی وجہ سے رو رہا تھا ۔ شیران نے سارا دھیان اپنے بیٹے کی طرف کرنا چاہا مگر دانین مصطفی کی یاد اس پڑ راضی نہ ہوئی ۔۔ صبا کو آواز دے کر وہ ٹیرس پر آ گیا
“تمہاری محبت نے تو اولاد کی محبت کو بھی ہرا دیا دانین اور تم کہتی تھی کہ صبا جیت گئی ” اس نے دور خلا میں دیکھتے ہوئے سوچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
“شیری میں کیسی لگ رہی ہوں ” وہ کالے رنگ کے سوٹ میں ہلکے نیچرل سے میک اپ کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ یہ بات وہ بھی جانتی تھی مگر اسے تو شیران جاہ کے منہ سے یہ بات سننا تھی ۔ شیری نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ اپنی فائل پڑ نظر جماتے ہوئے “بس ٹھیک کہا ۔
“وہاٹ ؟ وہاٹ ڈو یو مین بائے بس ٹھیک ” وہ آنکھیں پھیلاتے ہوئے چیخی
“مجھے جیسی لگی ہو ، میں نے بتا دیا ” شیران کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا ۔
“اپنی نظر چیک کرواؤ ” اس نے تڑخ کر جواب دیا ۔
“ہا ہا ہا ۔۔۔یعنی جسے تم پیاری نہیں لگو گی اس کی نظر خراب ہے ۔۔۔ وہاٹ آ سٹینڈرڈ یار ” وہ کھل کے ہنسا۔۔۔ دانین نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ۔۔۔
“اے نین ۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔ ناراض ہو گئی ہو کیا ” وہ اس کے چہرےکی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
“نہیں ” وہ منہ موڑ گئی ۔
“اچھا بابا ناراض کیوں ہوتی ہو ۔۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔بلکل دلہن جیسی ۔۔ اب خوش ” وہ اسے مزید تنگ کرنے کے موڈ میں تھا ۔ وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی ۔
“مجھے دلہن کے روپ میں سب سے پہلے تم دیکھو گے ۔۔۔آئی پرامس” وہ سنجیدہ ہوئی
“میں ؟؟؟؟ میں کیسے “وہ حیرانگی سے بولا
“کیونکہ میں تمہاری دلہن بنوں گی ” اس کی آنکھوں کا رنگ بدلا
“اوہو ۔میری ہی سہی لیکن میری باری آنےتک تو بہت لوگ دیکھ چکےہوں گے تمہیں ”
“نہیں شیری ۔۔۔ سب سے پہلے تم دیکھو گے ۔۔۔کیونکہ مجھ پر پہلا حق تمہارا ہے ” اس کے ایک ایک لفظ میں سچائی بول رہی تھی ۔
“ارے نینو تم ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہو ۔ ثوبان بھائی انتظار کر رہے ہیں ۔پارلر نہیں جانا کیا ۔ ” نور کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں لے آئی ۔ اس کے ہاتھ میں اس وقت بھی وہی رات والی ڈائری تھی ۔
“جلدی آؤ پلیز ” نور کہتی ہوئی باہر نکل گئی ۔۔۔ دانین نے ڈائری کی طرف دیکھا اور اپنے ہونٹ شیران جاہ کے سائن پڑ رکھ دیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔//۔۔۔۔۔۔۔۔۔/۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے شہرکے سب سے مہنگے پارلر سے تیار کروا گیا تھا ۔ برائیڈل روم سے نکلنے سے پہلے وہ ورکر سے بولی
“پلیز آپ باہر نور سے میرا موبائل لا دیں گی ؟”
“جی میم ” ورکر نے اسےموبائل لا کر دیا تو اس نے اپنی ایک تصویر لی اور کچھ لکھ کر کسی کو بھیج دی ۔
“موبائل کیوں منگوایا تھا دانین ۔۔۔خیریت تو ہے نا “نور نے تشویش سے پوچھا
“ہاں ۔۔۔۔ شیران kو تصویر بھیجنی تھی اپنی ” اس نے بہت سکون سے جواب دیا ۔
“کیوں ۔۔۔۔ ان کو کیوں بھیجی تصویر ” صباحت بھی حیران ہوئی
“کیونکہ حق ہی اس کا ہے ” دانین نے باہر کی طرف قدم بڑھایا ۔
۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
شیران جاہ آج بھی سٹڈی روم میں تھا ۔ ایش ٹرے آج بھی ادھ جلے سگریٹوں سے بھرا ہوا تھا ۔ وہ آنکھیں موندے کش پہ کش لگائے جا رہا تھا ۔ بند آنکھوں کے اس پار دانین کھڑی تھی ۔ اس کی اپنی دانین ۔۔۔ جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے کسی اور کو سونپ دی تھی ۔کمرے کا ماحول خواب ۔ ناک سا تھا ۔۔۔ بلکل خاموشی میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد شیران کی خوبصورت گمبھیر آواز ابھرتی
“میرا بچھڑا رانجھا موڑ سائیں ” ۔۔۔۔۔ موبائل کی بپ نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ۔اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی دلہن بنی دانین مصطفی کھڑی تھی ۔ وہ کوئی آسمانی حور لگ رہی تھی ۔
“میں نے اپنا وجود تو کسی اور کے نام لکھ دیا ہے مگر حق آج بھی صرف تمہارا ہے شیران ۔ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ۔”
میسج پڑھتے ہوئے شیران کا ضبط جواب دے گیا اور وہ رو پڑا
“لوٹ آؤ دانین ۔۔۔۔نہیں رہ پاؤں گا ۔۔۔مر جاؤں گا میں ” ۔۔۔۔وہ اقرار کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ واپس بلا رہا تھا دانین کو ۔۔۔۔۔۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی————

جاری ہے———————-

میرا کوئی ارادہ نہیں تھا فیسبک پر ناول اپلوڈ کرنے کا
پر اپنی وٹسیپ اور فیسبک کی دوستوں کی فرمائش پر کر ہی دیا 🤭🦋
امید ھے پسند آئے گا سب کو 🦋

#لاریب_غفار
#لاریب_اقراء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *