Wafa by Laraib Iqra Complete Novel. Get daily Best Urdu novel pdf Free Urdu Summaries and any romance novel upload. This Novel Loads on this page Urdu Summaries, Magazines, Jasoosi Novels, Social Books, Urdu Novels, Academic Books, Khaufnak Novels, and all reasonably Urdu books. Welcome to our website We hope you are well We have created a very nice and easy-to-navigate website for your convenience. We hope you like our website. If you like our website, please share it with others.
Wafa by Laraib Iqra
Free download all kinds of the latest romance novels in Urdu. This site is only for Urdu Novel and Digest. Urdu Kitab is the number 1 site for novels and summaries in the world. This site is user-friendly. This is a World Press website and it is easy to open for mobile users. Your website is easy to use for any browsing device and MObile in WOrld. This website has 2000 best Urdu novels on the site.
Urdu literature (Urdu: ادبیات اردو, “Adbiyāt-i Urdū”) is literature in the Urdu language. While it tends to be dominated by poetry, especially the ghazal غزل and nazm نظم verse forms, it has expanded into other styles of writing, including that of the short story or afsana افسانہ. Urdu literature is most popular in Pakistan, where Urdu is the national language, and in India, where it is a recognized language. It is also widely understood in Afghanistan and is moderately popular in Bangladesh.
ناول،
وافا❤️
اذ،
لاریب اقراء ✍
قسط، 1
کمرہ نیم تاریک اور سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا ۔مہنگے کلون کی خوشبو تمباکو کی مہک کے ساتھ مل کر ماحول پر عجیب سا سحر طاری کر رہی تھی ۔ٹیبل لیمپ کی مدھم کی گئی روشنی کمرے کی تاریکی کو شکست دینے میں ناکام ہو رہی تھی ۔ کھڑکی کے پاس آرام دہ کرسی پر جھولتا وجود اسی پراسرار ماحول کا حصہ لگ رہا تھا ۔ وہ آنکھیں بند کئے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا ۔پاس پڑے ایش ٹرے میں موجود کئی ادھ جلے سگریٹ اس بات کا ثبوت تھے کہ یہ مشغلہ کافی دیر سے جاری ہے ۔ ماحول کے طلسم کو دروازہ کھلنے کی آواز نے توڑا ۔
“آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟” ایک نسوانی آواز نے کمرے کے سکون کو بے سکون کیا۔
“ہمم ” وہ چونکا “ہاں ٹھیک ہوں ” اس نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلا
“اتنی سموکنگ کیوں کر رہے ہیں ” اس کے لہجے میں تشویش تھی “کوئی پرابلم ہے کیا ”
“نہیں ۔۔۔بس یونہی ۔۔۔۔”شیران نے بات کو ٹالا “ہادی سو گیا ہے کیا ”
“جی سو گیا ہے ” وہ اس کے جواب سے مطمئن تو نہ ہوئی مگر جانتی تھی کہ مزید کریدنا بھی فضول تھا ۔سو خاموشی سے دروازے کی طرف مڑ گئی ۔
“صبا ” شیران کی آواز نے اسے روکا ۔وہ پیچھے مڑ کر اسے دیکھنے لگی ۔
“تم سو جاؤ ۔میں آج رات ادھر سٹڈی میں ہی ہوں ” وہ “جی بہتر ” کہہ کر نکل گئی اور شیران ایک بار پھر خیالوں کی دنیا میں لوٹ گیا ۔
______
یہ صبح بھی بہت سی عام صبحوں جیسی ہی تھی ۔وہ تیار ہو کر ٹیبل پر آیا تو صبا کافی کا مگ ہاتھ میں لیے اس کے انتظار میں تھی ۔ شیران نے کافی کا مگ اس کے ہاتھ سے لیا اور تھینکس کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔صبا نے ایک لمبا سانس ہوا میں خارج کیا اور چائے کا کپ اٹھا کر ادھر ہی بیٹھ گئی ۔ہادی ابھی سو رہا تھا ۔اس لیے وہ آرام سے چائے پینے میں مصروف ہو گئی۔۔ اس کا دھیان ابھی بھی شیران کی طرف تھا ۔ ان کی شادی کو چار سال گزر چکے تھے ۔مہر ہادی بھی چھ ماہ کا ہو چکا تھا ۔شیران اپنی تمام تر ذمہ داریاں بہت اچھے سے نبھا رہا تھا ۔گھر میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں تھی ۔صبا کو کوئی روک ٹوک نہ تھی ۔گھر ، گاڑی ، پیسہ ، اولاد ، شوہر سب کچھ تھا اس کے پاس ۔۔۔۔۔پھر بھی ایک کمی تھی جو اس کی تمام آسائشوں کو پس پشت ڈال دیتی تھی ۔جو مکمل دکھائی دیتے شیران کو ادھورا رکھتی تھی ۔اور اس کمی کا نام تھا دانین مصطفی ۔۔شیران جاہ کی دانین مصطفی ۔
“تم دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہو دانین ” صبا نے آنکھوں کی نمی کو پیچھے دھکیلتے ہوۓ سوچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سر آج شفقت سنز کے ساتھ آپ کی میٹنگ ہے ” ماڈرن سی سیکرٹری نے شائستہ لہجے میں بات کرتے ہوئے اسے آج کی مصروفیت بتائی ۔
“آج کوئی میٹنگ نہیں پلیز ۔سب کینسل کر دیں ” شیران نے فائلز کو سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا
“لیکن سر ” اس نے کچھ کہنا چاہا تو شیران نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کروا دیا
“مص افشین یو مے گو ناؤ ”
“یس سر ” وہ ڈائری اٹھا کر آفس سے نکل گئی ۔ شیران کلائی پر بندھی گھڑی میں کچھ کھوجنے لگ گیا ۔۔۔موبائل کی گھنٹی نے اس کا ارتکاز توڑا ۔اس نے نمبر دیکھ کر فون کان کے ساتھ لگا لیا ۔
“ہاں عثمان بولو ”
“یار کدھرہے تو فون بھی آف جا رہا تھا تیرا ۔” دوسری طرف عثمان شاہد تھا ۔شیران جاہ کا بہترین دوست اور ہمراز ۔جواس کے ایک ایک پل اور اذیت سے واقف تھا ۔
“گھر پہ ہی تھا ” شیران نے مختصر جواب دیا ۔
“شیری ۔۔۔دانین سے بات ہوئی کیا ” عثمان کو ایک سیکنڈ لگا اس کے اس موڈ کی وجہ تک پہنچنے میں ۔
“نہیں ۔۔۔۔دیکھی تھی کل ۔۔۔۔مال میں ” شیران جھوٹ نہ بول سکا ۔آواز سے صدیوں کی تھکن جھلک رہی تھی ۔
“میں آ رہا ہوں تیری طرف ” عثمان نے جواب کا انتظار کئے بغیر کال کاٹ دی ۔ شیران نے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور سن گلاسز اور سگریٹ اٹھا کر آفس سے باہر آ گیا ۔
عثمان اسے لے کر ایک کافی شاپ میں آ گیا تھا ۔وہ خاموش بیٹھا زمین کو دیکھ رہا تھا ۔عثمان نے اپنے سامنے بیٹھے بزنس کی دنیا کے اس آئیکون کو دیکھا جو اس وقت ایک ہارا ہوا کھلاڑی لگ رہا تھا ۔عثمان کو شیران جاہ بہت پیارا تھا ۔وہ کالج کے زمانے سے ساتھ تھے ۔گزرے ماہ و سال نے انہیں بہت قریب کر دیا تھا ۔اس وقت بھی وہ شیران کی حالت بخوبی سمجھ سکتا تھا ۔
“کس کے ساتھ تھی ” عثمان نے سکوت کو توڑا ۔
“اپنے بابا کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ شادی کی شاپنگ کر رہی تھی ” شیران کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی معلوم ہوئی ۔
“وہاٹ ؟؟؟ دانین کی شادی ؟ کس کے ساتھ؟ تمہیں کس نے بتایا ” عثمان کو جھٹکا لگا
“انکل نے بتایا تھا کل ادھر ہی ۔۔۔۔۔ اگلے ہفتے اس کی شادی ہے ۔۔۔۔تیمور کے ساتھ ”
“تیمور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہجہان گروپ والا ” عثمان ایک بار پھر حیرت زدہ ہوا
“ہاں وہی ۔۔۔۔۔۔میرا بزنس رائیول ” شیران نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا
“دانین کو سے سا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔ وہ شائد بدلہ لے رہی ہے ”
“ہاں شائد ۔۔۔۔۔ جو بھی ہے آئی وش ہر آ گریٹ لائف ” شیران نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ” اور اگر یہ بدلہ ہے نا عثمان تو دانین کو حق ہے وہ جس طرح چاہے شیران جاہ سے بدلہ لے سکتی ہے ۔”
“ہاں ۔۔۔۔غلطی تیری تھی ۔۔۔میں گواہ ہوں اس کی محبت کا اس کے خلوص کا ۔۔۔۔۔ مگر شیری تو کمزور پڑ گیا تھا ۔۔۔تو نے محبت کو مصلحت پر قربان کر دیا تھا ”
“وقت کا تقاضا یہی تھا ۔۔۔۔۔ تم نہیں سمجھو گے ۔۔۔۔ مجھے آفس ڈراپ کر دو ” شیران کہہ کر چل پڑا ۔عثمان کو بھی مجبورا اس کے پیچھے جانا پڑا ۔
_______
“دانین بیٹا ۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟ آپ کو ڈریس پسند نہیں آیا کیا ” پھپھو نے اس کے اترے ہوئے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔
“نہیں پھپھو ۔۔۔ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔میں نے خود ہے تو لیا ہے ” اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
“پھر مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ تم خوش نہیں ہو ” پھپھو اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پریشانی سے بولیں
“آپ کے لیے اور بابا کے لیے اداس ہوں ۔۔۔ ۔ ۔ میں کیسے رہوں گی ادھر ۔۔۔۔کسی کے گھر میں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو اپنے کمرے کے علاوہ کہیں اور نیند بھی نہیں آتی ” وہ رو دینے کو تھی
“اوہو ۔۔۔۔پھپھو کی جان اب وہ گھر تمھارا بھی ہے ۔۔۔۔تیمور بہت اچھا لڑکا ہے ۔بہت خیال رکھے گا تمہارا ۔ اور پھر کون سا تم دور جا رہی ہو ۔جب دل چاہے آ جانا ” انہوں نے دانین کو گلے لگا لیا ۔۔
_______
آج دانین مصطفی دانین تیمور ہونے جا رہی تھی ۔ سب بہت خوش تھے ۔پھپھو کی آنکھیں بار بار چھلک جاتیں ۔انہوں نے اسے ماں بن کر پالا تھا۔ دانین صرف ایک سال کی تھی جب شیریں مصطفی ایک کار حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے گزر گئی تھیں ۔ اور بہت پیاری سے دانین پھپھو کی گود میں آ گئی تھی ۔۔۔۔ مہر النسا بیگم کے اپنے دو بیٹے تھے ۔مہران اور ثوبان ۔۔۔ بیٹی کی خواہش انہیں شروع سے تھی جو الله پاک نے دانین کی صورت میں۔ پوری کر دی تھی ۔مصطفی صاحب نے سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی تھی ۔ ان کی زندگی ان کی بیٹی کے لیے ہی وقف تھی ۔
مہرالنسا ہر کام کو دیکھ رہی تھیں ۔ مہران اور ثوبان بھائی ہونے کا حق ادا کر رہے تھے ۔آج رات مہندی تھی ۔اور ساتھ ہی نکاح کا فرض بھی ادا ہونا تھا ۔ ہر طرف خوب رونق تھی ۔ انتظامات میں کسی قسم کی کسر نھیں چھوڑی گئی تھی ۔ دانین کی سہیلیاں صبح سے ہے آ گئی تھیں ۔اور ان سب ہنگاموں کے درمیان وہ کسی پتھر کی مورت کی طرح چپ بیٹھی تھی ۔ کوئی خالی پن اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔۔ آنسو کئی بار پلکوں کی باڑ توڑ چکے تھے اور وہ ہر بار اپنے گال بے دردی سے مسل دیتی تھی ۔
“میں نہیں یاد کر رہی تمہیں ۔ کوئی تعلق نہیں ہے ہمارا ” وہ خود کو بہت دفعہ یہ باور کروا چکی تھی ۔۔۔۔لیکن دل ماننے کو تیار ہی نہیں تھا ۔ وہ اٹھ کر الماری کی طرف آ گئی ۔ اور دھیان بٹانے کے لیے چیزوں کو الٹنے پلٹنے لگی ۔ اس کی نظر ایک پرانی ڈائری پر پڑی تو اس نے وہ اٹھا کر ورق گردانی شروع کر دی ۔اس کے ہاتھ ایک صفحے پر رک گئے ۔ تاریخ اور دن کے ساتھ ایک نوٹ لکھا تھا ۔
A great day with a greatest person…. Long walk , coffee n much more to remember”
دانین کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ وہ دن وہ کیسے بھول سکتی تھی ۔ اس دن اس نے اور شیران نے بہت باتیں کی تھیں ۔بہت سا وقت ساتھ گزارا تھا ۔ وہ بہت نٹ کھٹ سی کھل کر اظہار کر دینے والی لڑکی تھی ۔جبکہ شیران اس کے بر عکس تھا ۔ اپنے جذبوں کو آشکار نہ کرنے والا ۔دونوں کا ساتھ بھی ایک حیران کن واقعہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ شیران باتوں سے زیادہ عمل پڑ یقین رکھتا تھا اور دانین اظہار کو فرض سمجھتی تھی ۔ابھی بھی وہ اس نوٹ کے نیچے موجود شیران کے سائن دیکھ کر ضبط کھو بیٹھی تھی ۔ وہ بے اختیار ان سائن پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔
“میں آج بھی تمہاری دیوانی ہوں شیری ۔ آج بھی تمہاری ہوں ۔ صرف تمہاری دانین ” وہ کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اے شیران ۔۔۔ بات سنو نا ” وہ بے تکلفی سے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی
“جی بولیں ” شیران بغیر کوئی تاثر دیے بولا
“مجھے تم سے محبت ہے ۔۔۔۔بے شمار والی ” وہ ایسی ہی تھی ۔ کھل کر بول دینے والی ۔ شیران محض دیکھ کر رہ گیا ۔
“ڈرتے کیوں ہو ۔۔۔۔۔ قسم سے میرے کرنے والے کام تم کرتے ہو اور پھر مجبورا تمہارے کرنے والے کام مجھے کرنے پڑ جاتے ہیں ” وہ ایک آنکھ دبا کر شرارت سے بولی ۔ شیران نے اسے خفگی سے گھورا ۔
ہادی کے رونے کی آواز اسے حال میں کھینچ لائی ۔ اس نے لمبا سانس لیا اور اٹھ کر ہادی کے پاس آ گیا جو کھلونا ہاتھ سے گر جانے کی وجہ سے رو رہا تھا ۔ شیران نے سارا دھیان اپنے بیٹے کی طرف کرنا چاہا مگر دانین مصطفی کی یاد اس پڑ راضی نہ ہوئی ۔۔ صبا کو آواز دے کر وہ ٹیرس پر آ گیا
“تمہاری محبت نے تو اولاد کی محبت کو بھی ہرا دیا دانین اور تم کہتی تھی کہ صبا جیت گئی ” اس نے دور خلا میں دیکھتے ہوئے سوچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
“شیری میں کیسی لگ رہی ہوں ” وہ کالے رنگ کے سوٹ میں ہلکے نیچرل سے میک اپ کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ یہ بات وہ بھی جانتی تھی مگر اسے تو شیران جاہ کے منہ سے یہ بات سننا تھی ۔ شیری نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ اپنی فائل پڑ نظر جماتے ہوئے “بس ٹھیک کہا ۔
“وہاٹ ؟ وہاٹ ڈو یو مین بائے بس ٹھیک ” وہ آنکھیں پھیلاتے ہوئے چیخی
“مجھے جیسی لگی ہو ، میں نے بتا دیا ” شیران کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا ۔
“اپنی نظر چیک کرواؤ ” اس نے تڑخ کر جواب دیا ۔
“ہا ہا ہا ۔۔۔یعنی جسے تم پیاری نہیں لگو گی اس کی نظر خراب ہے ۔۔۔ وہاٹ آ سٹینڈرڈ یار ” وہ کھل کے ہنسا۔۔۔ دانین نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ۔۔۔
“اے نین ۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔ ناراض ہو گئی ہو کیا ” وہ اس کے چہرےکی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
“نہیں ” وہ منہ موڑ گئی ۔
“اچھا بابا ناراض کیوں ہوتی ہو ۔۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔بلکل دلہن جیسی ۔۔ اب خوش ” وہ اسے مزید تنگ کرنے کے موڈ میں تھا ۔ وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی ۔
“مجھے دلہن کے روپ میں سب سے پہلے تم دیکھو گے ۔۔۔آئی پرامس” وہ سنجیدہ ہوئی
“میں ؟؟؟؟ میں کیسے “وہ حیرانگی سے بولا
“کیونکہ میں تمہاری دلہن بنوں گی ” اس کی آنکھوں کا رنگ بدلا
“اوہو ۔میری ہی سہی لیکن میری باری آنےتک تو بہت لوگ دیکھ چکےہوں گے تمہیں ”
“نہیں شیری ۔۔۔ سب سے پہلے تم دیکھو گے ۔۔۔کیونکہ مجھ پر پہلا حق تمہارا ہے ” اس کے ایک ایک لفظ میں سچائی بول رہی تھی ۔
“ارے نینو تم ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہو ۔ ثوبان بھائی انتظار کر رہے ہیں ۔پارلر نہیں جانا کیا ۔ ” نور کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں لے آئی ۔ اس کے ہاتھ میں اس وقت بھی وہی رات والی ڈائری تھی ۔
“جلدی آؤ پلیز ” نور کہتی ہوئی باہر نکل گئی ۔۔۔ دانین نے ڈائری کی طرف دیکھا اور اپنے ہونٹ شیران جاہ کے سائن پڑ رکھ دیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔//۔۔۔۔۔۔۔۔۔/۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے شہرکے سب سے مہنگے پارلر سے تیار کروا گیا تھا ۔ برائیڈل روم سے نکلنے سے پہلے وہ ورکر سے بولی
“پلیز آپ باہر نور سے میرا موبائل لا دیں گی ؟”
“جی میم ” ورکر نے اسےموبائل لا کر دیا تو اس نے اپنی ایک تصویر لی اور کچھ لکھ کر کسی کو بھیج دی ۔
“موبائل کیوں منگوایا تھا دانین ۔۔۔خیریت تو ہے نا “نور نے تشویش سے پوچھا
“ہاں ۔۔۔۔ شیران kو تصویر بھیجنی تھی اپنی ” اس نے بہت سکون سے جواب دیا ۔
“کیوں ۔۔۔۔ ان کو کیوں بھیجی تصویر ” صباحت بھی حیران ہوئی
“کیونکہ حق ہی اس کا ہے ” دانین نے باہر کی طرف قدم بڑھایا ۔
۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
شیران جاہ آج بھی سٹڈی روم میں تھا ۔ ایش ٹرے آج بھی ادھ جلے سگریٹوں سے بھرا ہوا تھا ۔ وہ آنکھیں موندے کش پہ کش لگائے جا رہا تھا ۔ بند آنکھوں کے اس پار دانین کھڑی تھی ۔ اس کی اپنی دانین ۔۔۔ جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے کسی اور کو سونپ دی تھی ۔کمرے کا ماحول خواب ۔ ناک سا تھا ۔۔۔ بلکل خاموشی میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد شیران کی خوبصورت گمبھیر آواز ابھرتی
“میرا بچھڑا رانجھا موڑ سائیں ” ۔۔۔۔۔ موبائل کی بپ نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ۔اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی دلہن بنی دانین مصطفی کھڑی تھی ۔ وہ کوئی آسمانی حور لگ رہی تھی ۔
“میں نے اپنا وجود تو کسی اور کے نام لکھ دیا ہے مگر حق آج بھی صرف تمہارا ہے شیران ۔ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ۔”
میسج پڑھتے ہوئے شیران کا ضبط جواب دے گیا اور وہ رو پڑا
“لوٹ آؤ دانین ۔۔۔۔نہیں رہ پاؤں گا ۔۔۔مر جاؤں گا میں ” ۔۔۔۔وہ اقرار کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ واپس بلا رہا تھا دانین کو ۔۔۔۔۔۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی————
جاری ہے———————-
میرا کوئی ارادہ نہیں تھا فیسبک پر ناول اپلوڈ کرنے کا
پر اپنی وٹسیپ اور فیسبک کی دوستوں کی فرمائش پر کر ہی دیا 🤭🦋
امید ھے پسند آئے گا سب کو 🦋
#لاریب_غفار
#لاریب_اقراء
ناول،
وافا❤️
اذ،
لاریب اقراء ✍
قسط، 2
دانین بہت سی دعاؤں اور قرآن پاک کے سائے تلے رخصت ہو کر “تیمور ولاز “میں آ گئی ۔ اسے تیمور کے کمرے میں پہنچا دیا گیا ۔ کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔ لیکن اسے اس مکان اور اس کے مکین سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ اس نے ایک بیزار سی نظر اطراف پر ڈالی اور چوڑیاں اتارنا شروع کر دیں ۔
تمہاری چوڑیوں کی آواز بہت مزے کی ھے ویسے ۔۔۔۔ جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بجتی ہوں ” شیران کی آواز گونجی
اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا ۔ مگر وہ کہیں نہیں تھا ۔
“میرا پیچھا چھوڑ دو شیران جاہ ۔۔۔ معاف کر دو میری یہ غلطی کہ میں نے تم سے محبت کی ” ۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیران جاہ کے لیے آج کی رات قیامت کی رات تھی ۔ ایک ایک پل ایک صدی کے برابر تھا ۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دانین کو کہیں سے لے آئے ۔ صبا دو بار آ چکی تھی ۔ مگر وہ ہر بار آنکھیں موندے کرسی پر جھول رہا ہوتا اور وہ چپ چاپ واپس لوٹ جاتی ۔ شیران بہت تکلیف میں تھا ۔ اسے ایک ایک بات یاد آ رہی تھی ۔ درد جب حد سے بڑھا تو وہ گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل آیا ۔ صبا لاؤنج میں بیٹھی تھی ۔
“کہاں جا رہے ہیں شیری ” وہ فورا اس کی طرف بڑھی ۔
“پتا نہیں ” وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور اگلے ہی پل لمبے لمبے ڈگ بھرتا دروازہ پار کر گیا ۔
صبا وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گئی ۔
“میں اپنی زندگی کا اثاثہ تمہیں سونپ رہی ہوں صبا زمان ۔۔۔۔ حفاظت کرنا اس کی ” اسے دانین کی بات یاد آئی ۔
“ہاہاہا ۔۔۔۔ تمہاری زندگی کا اثاثہ ۔۔۔۔ جاؤ دانین مصطفی ۔۔۔ وہ اگر تمہاری زندگی کا اثاثہ ہوتا تو تمہیں ملتا ، مجھے نہیں ۔۔۔۔ شیران جاہ میرا تھا اور میرا ہو گیا ۔۔۔ ۔ ثبوت تمہارے سامنے ھے ” اس نے اپنا اور شیران کی شادی کا کارڈ دانین کے سامنے لہرایا تھا ۔
“اس کا فیصلہ وقت کرے گا ” دانین یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن آج ، چار سال بعد صبا کو لگ رہا تھا جیسے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی ۔ وہ لرز کر رہ گئی ۔ اس کی اور شیران کی کبھی اس حد تک نہیں بن سکی تھی جو ایک شادی شدہ جوڑے کے تعلقات ہوتے ہیں ۔ وہ کالج کے زمانے سے ہی شیران کو پسند کرتی تھی ۔ دونوں کے آپس میں فیملی ٹرمز تھے ۔ لیکن شیران اس کے لیے خاص جذبات نہیں رکھتا تھا ۔ وہ صبا کو صرف ایک اچھے دوست کی حیثیت سی دیکھتا تھا ۔ لیکن صبا مطمئن تھی کہ شیران کی زندگی میں کوئی اور لڑکی بھی نہیں تھی ۔ پھر دانین مصطفی آئی ۔۔۔۔۔۔جس نے پہلی ملاقات میں ہی شیران کو خاص مقام دے دیا تھا ۔۔۔۔ اس نے شیران کو ایک دن بتا بھی دیا کہ وہ اس کے لیے کیا سوچتی ھے ۔ شیران نے پہلے پہل اس کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی ۔ لیکن دانین کی معصوم محبت میں کچھ ایسا تھا کہ شیران ہار گیا تھا ۔ وہ اظہار کا زیادہ قائل نہ تھا مگر دانین اس کا جہان تھی ۔ وہ بہت خاص تھی اس کے لیے اور یہ بات دانین بھی جانتی تھی ۔ اسی لیے ہر گزرتے پل کے ساتھ اس کے خلوص اور شدت میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ صبا کو یہ سب کسی طور قبول نہیں تھا ۔ وہ کسی بھی قیمت پر شیران کو حاصل کرنا چاہتی تھی ۔۔
“بی بی جی ۔۔۔۔۔ ہادی بابا نہیں چپ ہو رہے میرے سے ” رانو کی آواز اسے ماضی کے لمبے سفر سے حال میں لے آئی ۔ اس نے رانو سی ہادی کو لیا اور کمرے میں آ گئی ۔
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور کمرے میں آیا تو وہ کپڑے چینج کر کے سونے کے لیے لیٹ چکی تھی ۔ اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا ۔ وہ اسے جان بوجھ کے نظر انداز کر رہی تھی ۔
“یہ کیا بیگم صاحبہ ۔۔۔۔۔ آپ نے تو ہمارا انتظار بھی نہیں کیا ” وہ بیڈ کی طرف بڑھا تو دانین اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ تیمور نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کو ہاتھ کو چھوا تو وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی ۔۔۔۔ یہ حرکت تیمور شاہجہان کو مزید حیران کر گئی ۔۔۔
“مجھے نیند آ رہی ھے ۔۔۔ ایکسکیوز می ” وہ بیڈ سے اتری ۔
“ہیلو ۔۔۔۔۔ اگر تمہارا یہ خیال ھے کہ میں تمہاری منت کروں گا تو ایسا کوئی سین نہیں ہونے والا ۔۔۔۔ ویسے بھی مجھے بیڈ شیئرنگ کی عادت بھی نہیں ھے ۔ اٹس بیٹر کہ تم اپنا بندوبست کہیں اور کر لو ” اس نے ٹائی اتار کر دور پھینکتے ہوئے کہا ۔ دانین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔۔۔۔ وہ جواب دینا چاہتی تھی مگر چپ رہی ۔۔۔۔ تیمور بہت آرام سے بیڈ پر سو گیا تھا ۔۔۔ ۔ دانین پوری رات صوفے کے ایک کونے میں بیٹھی بے آواز آنسو بہاتی رہی اور شیران جاہ کسی سڑک کی فٹ پاتھ پر بیٹھا سگریٹ کے دھوئیں سے کھیلتا رہا ۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کچھ دنوں بعد معمول پر آ ہی گئی تھی ۔ اندر کی ویرانیاں باہر کی رونقوں سے گھبرا کر اندر ہی رہ جاتی تھیں ۔ ۔۔ ۔۔ تیمور نے آفس جانا شروع کر دیا تھا ۔ دانین سارا دن گھر بیٹھی بور ہوتی رہتی ۔ ۔۔۔ اس کی ساس بہت سوشل خاتون تھیں ۔ وہ اکثر گھر سے باہر ہی رہتی تھیں ۔ انہوں نے دانین کو بھی ساتھ لے کر جانا چاہا لیکن اس نے بہت نرمی سے انکار کر دیا ۔ بہت گھبراتی تو پھپھو کی طرف چلی جاتی اور “سب ٹھیک ھے ” کا سگنل دے کر انہیں مطمئن کر آتی تھی ۔ وہ بابا اور پھپھو کو کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی ۔ تیمور کا رویہ اس کے ساتھ “بس ٹھیک” کی کیٹگری میں آتا تھا ۔ کیونکہ وہ خود بھی کوئی خاص تعلق نہیں بنانا چاہتی تھی ۔
زندگی اپنی روانی میں رواں دواں تھی جب تیمور کی طرف سے دانین کے لیے پہلا امتحان آیا ۔ تیمور کوئی بزنس ڈیل کرنا چاہتا تھا ۔ اور وہ ڈیل ہمیشہ شیران جاہ کو ہی ملتی تھی ۔ تیمور شیران اور دانین کی دوستی سے واقف تھا ۔۔وہ اس حد تک تو نہیں جانتا تھا کہ دونوں ایک۔ دوسرے سے محبت کرتے ہیں پھر بھی وہ اس ڈیل کے لیے دانین کو استعمال کرنا چاہتا تھا ۔
“شیران جاہ یاد ھے تمہیں ؟؟” اس نے دانین سے پوچھا ۔۔۔۔دانین کے ہاتھ کانپ گئے ۔۔۔۔
“نہیں ” اس نے خود پر قابو رکھتے ہوئے جواب دیا ۔
“حیرت ھے ۔۔۔ وہ تو تمھارے گروپ کا تھا “
“میرا بہت کم یونیورسٹی فیلوز سے رابطہ ھے “
“اوکے ۔۔۔ لیکن اب تمہیں وہ پرانا رابطہ بحال کرنا پڑے گا “
“مطلب ” وہ ناسمجھی سے کہتے ہوئے اس کی طرف مڑی
“مطلب یہ کہ مجھے UK بلڈرز کا وہ ٹینڈر چاہئے جو ہر بار اسے ملتا ھے ”
“میں اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہوں ” وہ اب بھی اسی کیفیت میں تھی
“تم اسے وہ ٹینڈر ریجیکٹ کرنے کو بولو گی ۔۔۔اور مجھے یقین ھے کہ وہ مان جائےگا ” وہ کمینگی سے مسکرایا
“میں ایسا کچھ نہیں کروں گی ” وہ تلخ ہوئی
“تم کرو گی کیونکہ ہماری ڈیل ہو چکی ھے یہ ” ۔۔۔۔۔۔ وہ معنی خیز انداز میں ہنسا اور باہر نکل گیا
“خود کو تمہارا رکھنے کے لیے میں گنہگار بھی ہو رہی ہوں اور ذلیل بھی شیران جاہ ” آنسو اس کے گال بھگونے لگے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن وہ شیران جاہ کے آفس میں کھڑی تھی ۔۔۔۔ افشین نے اسے انتظار کرنے کو کہا اور خود انٹر کام پر شیران کو اس کے آنے کی اطلاع دی
“سر کوئی مسز تیمور آئی ہیں ۔۔۔آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔جی سر “
“یو کین گو میم ” اس نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے گرین سگنل دیا۔۔۔۔ دانین کے قدم اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔۔۔وہ دروازے کے پاس جا کر رک گئی ۔ ۔۔۔ دھڑکن ایسے چل رہی تھی جیسے مسافت پوری کر رہی ہو ۔۔۔۔اس نے سانس بحال کیا اور دروازہ ہولے سے بجایا ۔۔۔
اندر سے آنے والی “یس ” کی آواز سے اس کی بیٹ مس ہوئی ۔ آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا ۔۔۔۔ مگر اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے قدم اندر کی طرف بڑھا دیے ۔
“السلام علیکم مسٹر شیران ” شیران نے سلام کا جواب دینے کے لیے سامنے دیکھا تو بت بن گیا ۔۔۔۔اس کے سامنے دانین کھڑی تھی ۔۔۔۔اس کی اپنی دانین ۔۔۔۔اس کی دیوانی ۔۔۔۔ اسی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔۔۔۔ وہ جیسے ساکت ہو گیا تھا ۔
“آئی ایم مسز دانین تیمور ” دانین نے اپنا تعارف ایسے کروایا جیسے کچھ جتانا چاہتی ہو ۔ شیران کو ایک لمحہ لگا خود کو سنبھالنے میں ۔
“پلیز آئیے ۔۔۔۔بیٹھئے ” وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر سٹنگ سائیڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔دانین نے بھی اس کے پیچھے قدم بڑھائے ۔۔۔۔
وہ بلکل آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔۔ بہت دنوں بعد ۔۔۔۔ دانین کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کیسے شروع کرے ۔۔۔آخر اس نے ہمت کر کے شیران کو اپنے آنےکا مقصد بتا ہی دیا ۔
“سوری مسز تیمور ۔۔۔۔۔مجھے افسوس ھے کہ میں آپ کا مان نہیں رکھ سکتا ۔۔ ۔ میں وہ ڈیل نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔اپنے ہزبینڈ سے کہئے گا اگر وہ یہ ڈیل مارکیٹ میں کرنے میں کامیاب ہو گئے تو میری بیسٹ وشز ان کے ساتھ ہیں “
دانین کو امید بھی یہی تھی کیونکہ شیران جاہ خود کسی کا حق چھینتا نہیں تھا اور کسی کو اپنا حق چھیننے نہیں دیتا تھا ۔
____
“مجھے آپ سے اچھائی کی امید بھی نہیں تھی ” دانین نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا
“بات اچھائی کی نہیں ، اصول کی ھے دانین ” شیران نے سگریٹ سلگاتے ہوئے جواب دیا
اس سے پہلے کہ وہ جانے کے لیے اٹھتی ۔۔۔۔ آفس بوائے کافی لے آیا ۔۔۔۔ دانین جانتی تھی کہ شیران کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی ھے کہ وہ کسی کے لیے کچھ کھانے کو لائے اور وہ بندہ بغیر کھائے چلا جائے ۔۔۔۔۔۔وہ چاہتے ہوئے بھی نہ اٹھ سکی ۔۔۔۔
“مے آئی کم ان سر ” افشین نے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔۔۔ دانین اور شیران کی نظر ایک ساتھ اس پر پڑی ۔۔۔۔۔دانین کے چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھرا ۔۔۔۔ جو شیران کی نظروں سے مخفی نہ رہ سکا ۔۔۔
“مس افشین بعد میں آئیے گا پلیز ۔۔۔۔” شیران نے اسے واپس بھیج دیا
“کافی لیں مسز تیمور ۔۔۔۔ورنہ آپ کے ہزبینڈ کو مجھ سے دو دو شکوے ہوں گے ” وہ طنز سے ہنسا ۔۔۔۔ دانین نے ایک بےبس سی نظر اس پر ڈالی اور چپ چاپ کافی کے سپ لینے لگی ۔
“چلتی ہوں ” کچھ دیر بعد وہ جانے کے لیے اٹھ گئی ۔۔۔۔ وہ کچھ نہ بولا ۔۔۔۔۔
“دانین ” وہ دروازے کے پاس پہنچی تو اسے اپنے پیچھے شیران کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔اس کے قدم تھم گئے ۔۔۔۔
“بات ڈیل کی نہیں ھے ۔۔۔۔۔اور یہ ایک ڈیل نہ ہونے سے مجھے کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑے گا ۔۔۔۔۔۔لیکن ” وہ کہتے کہتے رکا
“لیکن کیا ” وہ اس کی طرف مڑی
“تم انسان ہو ۔۔۔۔۔ کوئی سورس آف انکم نہیں کہ جسے پیسہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے ۔۔۔۔۔ اگر ایک باہر استعمال ہو گئی نا ۔۔۔۔تو بار بار کی جاؤ گی ۔۔۔۔ میری بات پر غور کرنا ۔۔۔ پھر بھی اگر تمہیں لگے کہ یہ تمہارے لیے بہتر ھے ۔۔۔۔تو مجھے ایک کال کرنا جسٹ ۔۔۔۔ میں وہ ڈیل نہیں کروں گا “
“شیران ” دانین کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔۔۔۔ وہ اس کے قریب آ کر بولا
“نو ۔۔۔۔ ڈونٹ کرائے ۔۔۔۔ بی بریو ” شیران نے اسے حوصلہ دینے کی کمزور سی کوشش کی
“آئی ایم آل رائٹ ۔۔۔۔ خدا حافظ ” وہ کہہ کر رکی نہیں ۔۔۔۔۔ شیران اسے جاتا دیکھتا رہا ۔۔۔۔
“میری معصوم سی دانین مصطفی ۔۔۔۔۔ ” اس نے بہت پیار سے اس لڑکی کا نام لیا کہ اب جس پر اس کا کوئی حق نہ تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رات کو کمرے میں جونہی داخل ہوئی ۔۔۔۔تیمور نے پہلا سوال یہی کیا کہ کیا وہ گئی تھی ۔۔۔
“جی گئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ نہیں مانا ” اس نے ہاتھوں کو لوشن لگاتے ہوئے جواب دیا
“وہاٹ یو مین بائے نہیں مانا ۔۔۔۔۔ تم اور کیا کرنے گئی تھی وہاں سٹوپڈ لیڈی ” اس نے دانین کا بازو پوری قوت سے پکڑ کے اس کا رخ اپنی طرف موڑا ۔ ۔۔۔۔۔ تکلیف کی شدت سے دانین نے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔
“ڈونٹ ٹچ می ” وہ بھی چلائی ۔۔۔۔” نہیں مانا تو نہیں مانا ۔۔۔۔ کیا کرتی میں ۔۔۔۔اور آپ مارکیٹ میں کیوں نہیں یہ ٹینڈر حاصل کر لیتے ۔۔۔۔ بجائے اس سے مانگنے کے “
“بکواس نہیں ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔آئی ول سی ہم ” وہ غصے سے کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔دانین وہیں بیڈ پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمان آج بہت دنوں بعد اس کے آفس آیا تھا ۔۔۔۔۔ اسے کچھ تبدیلی محسوس ہوئی تو پوچھے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔۔
“یہ آج مس افشین کا رخ روشن کدھر ھے ۔۔۔۔ فائلز واصف لا رہا ھے “
“انہیں میں نے IT ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دیا ۔۔۔۔ واصف میرا پی اے ھے اب ” شیران نے بڑے سکون سے جواب دیا
“ہیں ؟؟؟ اس تبدیلی کی وجہ ؟” عثمان کو حیرت ہوئی ۔۔۔۔کیونکہ افشین پچھلے کافی عرصے سے اس سیٹ پر تھی اور اپنا کام بہت اچھے سے کر رہی تھی
“دانین کو اچھا نہیں لگا اس کا ادھر ہونا ۔۔۔۔ اس لیے کرنا پڑا ایسا ” شیری نے اسے مزید حیران کیا
“دانین کو ۔۔۔۔۔ اس کو کیا پتا اس کے بارے میں اور تمہیں کیسے پتا کہ اسے اچھا نہیں لگا “
“وہ آئی تھی ۔۔۔۔ تیمور نے بھیجا تھا اسے ” شیران ایک فائل کی ورق گردانی کرتے ہوئے بولا
“یار پوری بات بتاؤ نا ۔۔۔۔ بہت بری عادت ھے یہ تمہاری ۔۔۔۔بات کو ٹکڑوں میں کر دیتے ہو ” عثمان اس کے مختصر جواب سے چڑ کر بولا
“یار وہ ایک ڈیل کے سلسلے میں آئی تھی ۔۔۔۔۔بلکہ بھیجی گئی تھی ۔۔۔۔ کہ میں وہ ڈیل نہ کروں تاکہ وہ تیمور کو مل سکے “
“وہاٹ ۔۔۔۔۔تیمور اس حد تک گر سکتا ھے ۔۔۔۔یقین نہیں آتا مجھے ۔۔۔گھر کی عزت کو پیسہ کمانے کے لیے استعمال کرے گا وہ ” عثمان غصے سے بولا
“یہی بات سمجھائی ھے میں نے اس بے وقوف لڑکی کو ۔۔۔۔پتا نہیں اب کیا کرے گی “
“اور اگر وہ نہ مانا تو ؟؟؟” عثمان نے سوالیہ نظروں سے شیران کو دیکھا
“تو میں وہ پیسہ دانین کا صدقہ کر دوں گا ” اس کے چہرے پر سکون تھا
“شیران جاہ ۔۔۔۔ تم ایسی محبت کرتے ہو ؟؟؟”عثمان بے یقین ہوا
“میں تلافی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ” وہ پیپر ویٹ گھماتے ہوئے بولا ۔۔۔۔عثمان نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“صبا ۔۔۔۔مہر ہادی مجھے دے جاؤ ” شیران نے صبا کو آواز لگائی ۔۔۔وہ کچھ وقت اپنے بیٹے کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ صبا نے ہادی اس کی گود میں دے دیا
“میرا شیر آیاھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا کی جان ۔۔۔” اس نے ہادی کو ہوا میں اچھالا تو وہ کھلکھلا پڑا ۔۔۔۔ صبا کو یہ منظر بہت مکمل سا لگا ۔۔۔۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے گھر کی خوشوں کی دعا مانگی ۔۔۔ ہادی کی پیدائش سے صبا کا دل بہت بہل گیا تھا ۔۔۔۔ تین سال تک اس کا اور شیران کا کبھی ایسا رشتہ ہی نہیں بن سکا تھا ۔۔۔۔ آخر سب کے بار بار پوچھنے اور اپنے بار بار ٹالنے سے تنگ آ کر شیران نے اسے بیوی ہونے کا مان بخشا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مکمل ہو گئی تھی ۔۔۔ مگر شیران جاہ آج بھی ادھورا تھا ۔۔۔۔
ہادی باپ کے سینے پر سر رکھ کر سو گیا تھا ۔۔۔۔۔ شیران کو عجیب سا سکون ملا تھا آج ۔۔۔۔ وہ بہت غورسے اس کے ایک ایک نقش کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
“دانین ۔۔۔۔ آئی گاٹ آ بے بی بوائے ” ہادی کی پیدائش کی خبر اس نے سب سے پہلے دانین کو دی تھی ۔۔۔ وہ خاموش ہو گئی تھی
“کچھ بولو گی نہیں کیا ” شیران نے اسے پھر مخاطب کیا
“مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔آج صبا جیت گئی شیری ” وہ بس اتنا ہی بول پائی اور فون بند کر دیا
“ایسا نہیں ھے ۔۔۔۔دانین لسن ٹو می ۔۔۔ہیلو ” شیران نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ کال بند کر چکی تھی ۔۔۔
“لائیں ۔۔۔ہادی مجھے دے دیں ۔۔۔۔” صبا کی۔ آواز اسے حال میں لے آئی ۔۔۔اس نے سوئے ہوئے ہادی کو پیار کیا اور صبا کو دے کر خود باہر لان آ گیا ۔۔۔۔ آج اسے دانین یاد آرہی تھی ۔۔۔ بے وجہ اور بے تحاشہ ۔۔۔۔۔۔ وہ اسی کی سوچوں میں تھا کہ اس کا میسج آ گیا ۔۔۔۔
“مے آئی کال یو ؟؟” وہ کال کرنے کی اجازت مانگ رہی تھی ۔۔۔۔شیران کا دل دکھ سے بھر گیا ۔۔۔۔یہ وہی دانین تھی جو اسے وقت بے وقت کال اور میسج کرنا اپنا حق سمجھتی تھی ۔۔۔شیران نے اس کا نمبر ڈائل کر دیا ۔۔۔۔
“ہیلو ” دوسری طرف سے دانین کی آواز آئی
“ہان دانین بولو ۔۔۔۔”
“آپ وہ ڈیل نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔۔” اس نے ڈائریکٹ بات کی
“گڈ ۔۔۔۔تھینکس ” شیران کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا ۔۔۔دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی تھی ۔۔۔ اس نے ایک لمبا سانس ہوا میں خارج کیا اور وہیں بنچ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
وہ یونیورسٹی کے ذہین سٹوڈنٹس میں شمار ہوتی تھی ۔۔۔ پروفیسرز سے لے کر کینٹین والے چاچا تک اس کی الٹی سیدھی حرکتوں کی زد میں آ جاتے تھے ۔۔۔۔ پھر بھی وہ سب کو پسند تھی ۔۔۔۔ شیران کبھی کبھی اس کی ان حرکتوں سے تنگ بھی ہوتا تھا ۔۔۔۔۔اور اسے منع بھی کرتا تھا ۔۔۔۔مگر وہ پھر بھی ویسی ھی رہتی ۔۔۔۔۔
“تم جیلس ہوتے ہو میرے سے ۔۔۔آئی نو ” وہ اس کے برابر میں بیٹھی پاؤں جھلاتے ہوئے بولی …..شیران نے ایک نظر اس پر ڈالی ۔۔۔۔ وہ بلیو جینز کے ساتھ نیوی بلیو کرتا پہنے ۔۔۔سر پر بلیک سکارف کئے اچھی خاصی پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔ جب سے اسے پتا چلا تھا کہ شیران کا فیورٹ کلر بلیو ھے ۔۔۔۔اس کے پاس بلیو چیزوں کی بھر مار ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔
“ایسے کیا دیکھ رہے ہو ” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی
“دیکھ رہا ہوں کہ تم کتنی خوش فہم ہو “
“ہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔ ناٹ ایٹ آل ۔۔۔۔ آئی ایم دا سپیشل ون ” اس نے بالوں کو جھٹکا دیا
“وہ کیسے ” شیران نےحیران ہوتے ہوئے سوال کیا
“کیونکہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔۔۔۔شیران جاہ کی محبت ہوں میں ۔۔۔۔اور شیران جاہ کی محبت عام کیسے ہو سکتی ھے ” وہ ہمیشہ اسے بہت اونچی مسند پر بٹھا دیتی تھی
“ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔سب انسان ایک جیسے ہیں ” شیران نے بات کو ٹالا
“ایسا ھی ہے شیری ۔۔۔۔ آئی ایم بلیسڈ ۔۔۔۔۔” وہ دور آسمان میں دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ اس کے چہرے پہ بلا کی معصومیت تھی ۔۔۔۔شیران دیکھتا رہ گیا ۔۔۔
“تم کیا تھی دانین مصطفی ۔۔۔۔ میری رگ رگ میں سما گئی ہو ۔۔۔۔آج چار سال بعد بھی وہی جگہ وہی مقام ہے تمہارا ۔۔۔۔ خوش رہو ہمیشہ ” شیران نے دل سے دعا مانگی ۔۔۔۔
جاری ہے——————