Dill e Aziz By Aliza Ayat Last Episode. Get daily Best Urdu novel pdf Free Urdu Summaries and any romance novel upload. This Novel Loads on this page Urdu Summaries, Magazines, Jasoosi Novels, Social Books, Urdu Novels, Academic Books, Khaufnak Novels, and all reasonably Urdu books. Welcome to our website We hope you are well We have created a very nice and easy-to-navigate website for your convenience. We hope you like our website. If you like our website, please share it with others.
Dill e Aziz By Aliza Ayat
Free download all kinds of the latest romance novels in Urdu. This site is only for Urdu Novel and Digest. Urdu Kitab is the number 1 site for novels and summaries in the world. This site is user-friendly. This is a World Press website and it is easy to open for mobile users. Your website is easy to use for any browsing device and MObile in WOrld. This website has 2000 best Urdu novels on the site.
Urdu literature (Urdu: ادبیات اردو, “Adbiyāt-i Urdū”) is literature in the Urdu language. While it tends to be dominated by poetry, especially the ghazal غزل and nazm نظم verse forms, it has expanded into other styles of writing, including that of the short story or afsana افسانہ. Urdu literature is most popular in Pakistan, where Urdu is the national language, and in India, where it is a recognized language. It is also widely understood in Afghanistan and is moderately popular in Bangladesh.
Notable Urdu from the last episode:
Urdu book area unit in PDF market. I trust you This Month’s Digest. This book definitely downloads in HD quality. We have scanned all the pages and regenerated them into a PDF file to share with our guests. Mediafire Links to get files in the easiest way in seconds. New pdf download file in one click by Google Drive. All your peace of mind No problem. If you have some problem.
You can share, and you can visit urdukitaab.net daily to download new books, and novels, summarize the latest books, etc.
You can freely select between reading online and downloading at the same time on our website. We now make it easy to get the latest PDF copy of monthly summaries online that you can read on our page. Plus downloadable files for your devices, read online and download a PDF copy to share with anyone anywhere
Note:
Share this post on social networks.
This post suggests that, as an example,
Facebook and Twitter Always be essential.
This post Share all finished, at any stage This
Link in the market At any time.
Write a comment here New Ask for any advice
New novels and summaries are available on my Facebook page
read online
آپ ہمیں اپنی پسند کے بارے میں بتائیں.نئی بکس اردوناولز کے لئے
یہ رہی آپ کی امانت اور یہ میں آپ کے حوالے کرتی ہوں رہی بات میرے وجود کی تو شروع سے ہی آپ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا عینا زرخان کی بات کو نظر انداز کرتے شیرازی سکندر سے بولی
اس طرح مت بولو میری بچی میں تمہارا گنہگار ہوں مگر میں نے تمہارے لیے کبھی برا نہیں سوچا شیرازی سکندر تو اس کی بات پر تڑپ ہی اٹھے تھے
شیرازی سکندر کی بات سن کر عینا طنزیہ مسکرائی اور آہستہ سے اپنا سر نفی میں ہلایا
چلو۔۔۔۔۔۔۔۔بغیر کوئی جواب دیا دانیال کو مخاطب کیا اور ایک دم سے پلٹی اور بغیر کسی کی طرف بھی دیکھے وہاں سے نکلتی چلی گئی
دانیال نے نظریں اٹھا کر ایک دفعہ سب کو دیکھا جو جاتی ہوئی عینا کو دیکھ رہے تھے پھر اس نے شیرازی سکندر کی طرف دیکھا جو ایک ہی دن میں سالوں کے بیمار لگ رہے تھے یہ تو طے تھا کہ وہ بہت پچھتا رہے ہیں مگر وہ جانے انجانے میں ہی سہی مگر بہت برا کر چکے تھے
خدا حافظ۔۔۔۔۔۔دانیال بڑی اماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اور پھر اپنے قدم بینا کے پیچھے بڑھائے جو اب وہاں سے جا چکی تھی
زرخان نے شولا برساتی آنکھوں سے عینا کو جاتے ہوئے دیکھا تھا جبکہ عینا کے جاتے ہی اس نے فوراً اپنا فون نکال کے داؤد کو کال ملائی تھی جو اگلے ہی پل اٹھا لی گئی تھی
داؤد گاڑی تیاری کرواؤ میری مجھے ابھی اور اسی وقت نکلنا ہے زرخان فون کان سے لگاۓ سنجیدگی سے بولا جبکہ داؤد زرخان کے حکم کی تکمیل کرتے ہوۓ اگلے پانچ منٹ میں محافظوں کے ساتھ حویلی کے باہر موجود تھا وہ ہمیشہ محتاط رہتا تھا کیونکہ زرخان سکندر کوئی عام شخصیت نہیں تھی اسے کسی بھی وقت کہیں پر بھی جانا پڑ جاتا تھا
داؤد کے باہر آنے کی اطلاع ملتے ہی زرخان تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر کی جانب بڑھا تھا
شیرازی سکندر اسی جگہ پر جم چکے تھے وہ سفید پڑھتے چہرے سے ٹیبل پر پڑی اس چین کو دیکھ رہے تھے جو کچھ دیر پہلے عینا انہیں واپس لوٹا کر گئی تھی
چچا جان آپ ٹھیک ہے ارحم شیرازی سکندر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا کیونکہ اسے شیرازی سکندر کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی
نہیں میں ٹھیک نہیں ہوں کیونکہ میری بچی ٹھیک نہیں ہے اس کی آنکھوں میں جو تحریر تھی میں وہ نہیں پڑھنا چاہتا وہ جو بول کر گئی ہے اگر ویسا ہو گیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا خدارا کوئی اسے روک دو وہ خود کو مار دے گی شیرازی سکندر اس وقت اپنے ہوش میں نہیں لگ رہے تھے کیونکہ ایک باپ نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں موت کا منظر دیکھا تھا وہ کیسے نارمل رہ سکتے تھے بے شک وہ بھی ایک آرمی آفیسر تھے مگر اولاد کا دکھ ہر دکھ سے بڑھ کر ہوتا ہے اور شیرازی سکندر یہ دکھ آج پہلی بار جھیل رہے تھے جو ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا
چچا جان کچھ نہیں ہوگا آپ سنبھالیں خود کو ارحم شیرازی سکندر کو وہیں پاس پڑے صوفے پر احتیاط سے بٹھاتے ہوئے بولا اور فاریہ کو اشارہ کیا کہ وہ بڑی اماں کو ان کے کمرے میں لے جاۓ تاکہ وہ بھی مزید پریشان نہ ہوں سکیں مگر سچ تو یہ تھا کہ عینا کے بولے گئے الفاظ حویلی کے ایک ایک فرد کے کانوں میں ابھی تک گونج رہے تھے وہ جاتے جاتے بھی سب پر ایک خوف طاری کر گئی تھی
___________________________________________________________________
حارث اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی بیڈ پر اسے لائبہ بیٹھی دکھائی دی جو اپنا سر گھٹنوں میں دیے رو رہی تھی
لائبہ کو روتے دیکھ کر حارث مانو جیسے تڑپ ہی اٹھا تھا وہ تیز تیز قدم لیتا لائبہ تک پہنچا اور جلدی سے اسے اپنے حصار میں لیا
میری جان کیوں رو رہی ہو کیا ہوا ہے حارث آہستہ سے لائبہ کے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹاتے ہوئے بولا تو لائبہ بغیر کچھ بولے اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جبکہ حارث اسے روتا دیکھ کر مزید پریشان ہو چکا تھا
لائبہ۔۔۔۔۔۔حارث نے آہستہ سے لائبہ کو پکارا
وہ وہ حح حور بھابھی لائبہ روتے ہوئے اٹک اٹک کر بولی جبکہ حور کا نام سنتے ہی حارث فوراً سمجھ گیا کہ وہ کیوں رو رہی ہے
کچھ نہیں ہوگا حور کو سب ٹھیک ہو جائے گا حارث اسے خود میں بھینچتے ہوئے بولا لائبہ کا رونا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا شادی کے اگلے دن ہی اس کے بیوی اس طرح روۓ گی اسے بالکل اندازہ نہیں تھا
ادھر دیکھو میری طرف حارث نے نرمی سے بولتے ہوئے لائبہ کا چہرہ اپنے ہاتھ کے پیالے میں بھرا
کچھ نہیں ہوگا تمہاری بھابھی کو وہ اپنے مشن پر گئی ہیں تم رونے کی بجائے دعا کرو کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جائے اور صحیح سلامت اپنی کامیابی کے ساتھ واپس لوٹ آۓ حارث نرمی سے اس کی پیشانی کو لبوں سے چھوتے ہوئے بولا تو لائبہ نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر حارث کی طرف دیکھا رونے کی وجہ سے آنکھیں اور چھوٹا سا ناک سرخ ہو چکا تھا جبکہ چہرہ سرخی مائل ہوا تھا
بولو تم کرو گی اپنی بھابھی کے لیے دعا کہ وہ کامیاب ہو کر واپس ہم سب کے پاس آ جائے حارث لائبہ کے بھیگی سرخ آنکھوں پر لب رکھتے ہوئے بولا
میں کروں گی۔۔۔لائبہ نے جلدی سے جواب دیا تو حارث مسکرا دیا
ہممم گڈ چلو پھر اٹھو اور عشاء کی نماز ادا کر کے اپنی بھابھی کے لیے دعا کرو حارث لائبہ کے رخسار کو تھپتھپاتے ہوئے بولا تو لائبہ نے ہلکی سی مسکان کے ساتھ ہاں میں سر ہلایا اور بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور وضو کرنے چلی گئی جب کہ حارث بھی ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتا اٹھا اور اپنا ڈریس چینج کرنے چلا گیا
_____________________________________________________________________
اس وقت عینا اپنی کمر پر دونوں ہاتھ باندھے اپنے رعب دار وجود کے ساتھ اپنی آرمی فورس کے سامنے کھڑی تھی جب کہ اس کے سامنے اس کے پوری آرمی فورس بالکل تیار گردن کو اکراۓ اس طرح کھڑے تھے جیسے صرف عینا کے حکم کے منتظر ہوں کیونکہ عینا کے آنے سے پہلے انہیں تمام ٹریننگ دے دی گئی تھی اس لیے اب انہیں ایک لفظ بھی سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑنی تھی کیونکہ وہ سب کچھ جانتے تھے انہیں کیا کرنا تھا وہ یہ بھی جانتے تھے مگر انہیں جو بھی کرنا تھا وہ عینا کے حکم پر کرنا تھا عینا کے حکم کے بغیر وہ ایک قدم نہیں اٹھا سکتے تھے
So officer, are you all ready?
عینا کی گرجدار آواز چاروں طرف گونجی تھی
یس میم۔۔۔۔۔ تمام آفیسرز نے ایک آواز میں جواب دیا تھا
عینا نے تمام افیسرز کو اگے بڑھنے کا اشارہ کیا تو سب بغیر رکے آگے بڑھ گئے اور کچھ ہی دیر بعد پوری ایک آرمی فورس اس بلڈنگ کو چاروں طرف سے گھیر چکی تھی جبکہ رات کے تیسرے پہر آرمی فورس کی موجودگی کو ابھی تک بلڈنگ کے اندر موجود افراد محسوس بھی نہیں کر سکے تھے
پتہ تو انہیں تب چلا جب بلڈنگ کے اندر موجود الرٹ الارم ایک ساتھ بجے تھے کیونکہ اس بلڈنگ کے علاقے میں جب بھی کوئی داخل ہوتا تھا تو وہ الرٹ الارم اس بات کی اطلاع دیتے تھے کہ کوئی غیر شخص اس علاقے میں داخل ہوا ہے جبکہ اچانک بلڈنگ کے چاروں طرف ہونے والے شور کو سنتے بلڈنگ کے اندر موجود افراد ہڑبڑا کر اٹھے تھے کیونکہ کچھ اس وقت عیاشی کرنے میں مصروف تھے اور کچھ اپنی نیند پوری کر رہے تھے مگر 14 طبق تو ان کے تب روشن ہوئے جب معلوم ہوا کہ بلڈنگ کے باہر پوری ایک آرمی فورس کھڑی ہے
یہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ان لوگوں کو ہمارا پتہ کیسے چل سکتا ہے ایم این اے کو فون ملاؤ جلدی ایک آدمی جو ان سب کا ہیڈ تھا جو دہشتگرد ان کا باس تھا جو کافی عرصے سے اس بلڈنگ میں چھپا بیٹھا اللیگل کام سر انجام دے رہا تھا آرمی فورس کو دیکھتے ہی وہ اونچی آواز میں چلایا تو اس کے ایک آدمی نے جلدی سے ایم این اے کو کال ملائی مگر اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا
باس ایم این اے کا نمبر تو بند جا رہا ہے وہ آدمی پریشانی سے بولا
ایسا کیسے ہو سکتا ہے ایم این اے کا نمبر آج تک بند نہیں گیا ضرور وہ ان لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہوگا کمشنر کو کال ملاؤ اس نے اگلا حکم دیا تو اس کا وہ آدمی جلدی سے کمشنر کو کال ملانے لگا جبکہ اتنی بار بیل جانے کے بعد بھی کمشنر نے کال نہیں اٹھائی تھی یقیناً وہ بھی جان چکا تھا کہ اس بلڈنگ پر ریٹ ہو چکی ہے اس لیے اب وہ ان کی کال کا کوئی جواب نہیں دے رہا تھا
یہ کمینہ غدار سالا۔۔۔۔۔بھیگی بلی بن کر بھاگ نکلا ہے اسے تو میں ہرگز نہیں چھوڑوں گا وہ کمشنر کو گلیز گالیوں سے نوازتے ہوئے بولا
نیچے جتنی بھی لڑکیاں قید ہیں ان سب کو کھولو وہ اپنے ایک آدمی کو حکم دیتے ہوئے بولا اور خود بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ قدم بلڈنگ کے تیسرے فلور کی جانب بڑھائے کیونکہ تمام لڑکیاں جنہیں نشہ دے کر بے ہوش کیا گیا تھا وہ سب وہیں پر موجود تھی اور بدقسمتی سے آج ہی ان کی اسمگلنگ ہونی تھی جو آرمی فورس وہاں پر ریٹ کر کے ناکام بنا چکی تھی
میٹھیر اور اس کے ساتھیوں تم لوگ اس وقت چاروں طرف سے گھیرے گئے ہو اور تم لوگوں کا یہاں سے بچ نکلنا ناممکن ہے اس لیے امن سے خود کو ہمارے حوالے کر دو ورنہ ہم سب کا انکاؤنٹر کر دیں گے دانیال ہاتھ میں مائک پکڑ کے بولا جب کہ سپیکر سے گونجنے والی اونچی آواز اس بلڈنگ کے اندر موجود تمام افراد نے سنی تھی
رکیں سر آپ یہاں سے آگے نہیں جا سکتے زرخان جو عینا کے پیچھے اسی جگہ پر آیا تھا اور عینا کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس علاقے کے شروع کے راستے پر کھڑے ایک آفیسر نے اسے وہیں پر روک دیا یہ اس علاقے کا داخلی بورڈ تھا اس سے آگے کسی کو بھی جانے نہیں دیا جا رہا تھا
تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے جو تم روکنے کی غلطی کر رہے ہو داؤد آگے بڑھ کر اس آفیسر کو دیکھتے ہوئے سختی سے بولا
جی سر میں جانتا ہوں کہ آپ کون ہیں میں بہت زیادہ معذرت خواں ہوں مگر آپ یہاں سے آگے نہیں جا سکتے میں آپ کی بہت ریسپیکٹ کرتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ میں آپ کے ساتھ سختی کروں اس لیے پلیز اب بغیر کچھ بولے ہی پیچھے ہٹ جائیں وہ افیسر زرخان کی طرف دیکھتے ہوئے بہت تسلی سے بول رہا تھا اس کے لہجے میں ادب اور عزت زرخان محسوس کر چکا تھا اس میں اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں تھا یہ اس کا آرڈرز تھے جو وہ اپنے فرض کو بخوبی نبھا رہا تھا زرخان کا مزید بحث کرنا بالکل فضول لگا اس لیے وہ جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اس کا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر وہ یہاں رک کر عینا کا انتظار تو کر سکتا تھا
میٹھیر اور اس کے ساتھیوں خود کو ہمارے حوالے کر دو ورنہ مجبوراً ہمیں اس بلڈنگ کے دروازے توڑ کر اندر آنا پڑے گا دانیال نے دوبارہ اپنی بات دہرائی کیونکہ پہلی بار بولنے پر آگے سے کوئی جواب وصول نہیں ہوا تھا
ہم لوگ خود کو ہرگز تم لوگوں کے حوالے نہیں کریں گے اور تم میں سے کسی نے بھی اندر آنے کی کوشش بھی کی تو ہم ان لڑکیوں کو جان سے مار دیں گے میٹھیر ایک لڑکی کے سر پر گن تانے تھرڈ فلور کی کھڑکی میں آتے ہوئے بولا جب سب نے نظر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا تھا جہاں پر وہ ایک لڑکی گردن پر گن رکھ کر انہی کی طرف دیکھ رہا تھا
عینا نے سخت نظروں سے کھڑکی میں کھڑے اس شخص کو دیکھا تھا جس کا رنگ تقریباً کالا تھا اور اس نے اپنے چہرے پر رومال باندھ کر اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا اور لڑکی کی گردن پر گن کا دباؤ بڑھا رہا تھا وہ لڑکی 15 سے 16 سال کی عمر کی تھی اور اسے ڈرگز دیکھ کر اتنا مدہوش کیا گیا تھا کہ اس لڑکی سے صحیح طرح سے اپنی آنکھیں بھی نہیں کھولی جا رہی تھی اور وہ ڈگمگا رہی تھی جیسے ابھی وہیں پر گر جائے گی عینا کا دل چاہا کہ یہیں سے اس آدمی کی گردن دبوچ کر اسے جان سے مار دے مگر یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا تھا کیونکہ اندر موجود بچیاں جو ان ظالموں کی قید میں تھی عینا کے لیے وہ سب بے حد عزیز تھی اور ان سب کو صحیح سلامت وہاں سے نکالنا یہ اس کا اصل مقصد تھا
No, you will never do that۔۔۔
دانیال اس بے حال ہوتی لڑکی کو دیکھتے ہوئے بولا اور پھر عینا کی طرف دیکھا جو اپنی وحشت زدہ آنکھیں اسی شخص پر گاڑھے کھڑی تھی
اس سے پوچھو کہ وہ ان لڑکیوں کو کیسے چھوڑے گا عینا جو پہلے ہی سمجھ چکی تھی کہ وہ آدمی لازمی کوئی شرط رکھنے والا ہے اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا عینا نے خود ہی دانیال کو بول دیا کہ وہ اس سے پوچھے کہ وہ ان لڑکیوں کو چھوڑنے کے بدلے میں کیا چاہتا ہے
دیکھو تم ان لڑکیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گے اور ان لڑکیوں کو صحیح سلامت چھوڑ دو گے دانیال مائک دوبارہ اپنے کے قریب کرتے ہوئے بولا
ٹھیک ہے چھوڑ دوں گا مگر ہماری بھی کچھ شرطیں ہیں اس نے شرط کی جگہ شرطیں بولا تھا
بولو کیا شرطیں ہیں تمہاری دانیال کا بھی ضبط بڑھتا جا رہا تھا اور وہ ایسے بلڈنگ کے اندر نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ہزاروں لڑکیاں جو اس بلڈنگ کے اندر قید تھی ان کی جان بھی جا سکتی تھی
ہماری پہلی شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھی کر رہا کر دیا جائے جسے تم لوگوں نے کچھ عرصہ پہلے سلاخوں کے پیچھے بند کیا ہے ہماری دوسری شرط یہ ہے کہ تم لوگ اپنی سارے آفیسرز کو یہاں سے بھیج دو تاکہ ہمیں تسلی ہو کے تو تم لوگ ہم پر کوئی حملہ نہیں کرو گے اور ہماری تیسری شرط یہ ہے کہ ہمارے یہاں سے نکلنے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کرو تب ہی یہ لڑکیاں صحیح سلامت تم لوگوں کو برامد ہو سکیں گی ورنہ یہ سب جان سے جائیں گی اس نے اپنی ساری شرطیں آگے رکھی جبکہ اس کی شرطیں سن کر عینا نے زور سے اپنی مٹھیاں بھینچی تھی کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ہی انہوں نے ایک دہشتگرد کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا تھا کیونکہ وہ ان کا ہی ساتھی تھا مگر وہ اپنی زبان سے کچھ نہیں بولا تھا سوائے اس کے ساتھیوں کے نام کے عینا اور اس کی آرمی فورس کو کچھ معلوم نہیں ہو سکا تھا
اس سے بولو کہ ہمیں تمہاری ساری شرطیں منظور ہیں مگر اس سب سے پہلے اسے ان لڑکیوں کو چھوڑنا ہوگا کی طرف دیکھتی ہوئی سنجیدگی سے بولی جبکہ عینا کی بات سن کر دانیال کو کافی حیرت ہوئی تھی وہ حیرت انگیز نظروں سے عینا کی طرف دیکھ رہا تھا
عینا تم جانتی ہو کہ ہم ایسا کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ہمیں اوپر سے یہ آرڈرز نہیں ہیں اور یہ فیصلہ دینے سے پہلے ہمیں اپنے سینیئر آفیسرز سے پوچھنا پڑے گا دانیال عینا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
تم سے جتنا بولا ہے صرف اتنا کرو عینا دانیال کی طرف دیکھتے ہوئے تھوڑی سختی سے بولی
ہمیں تمہاری ساری شرطیں منظور ہیں مگر اس سے پہلے تمہیں ان ساری لڑکیوں کو چھوڑنا ہوگا دانیال دوبارہ اسے آدمی سے مخاطب ہوا
تم نے کیا مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے کہ میں اپنے آخری مہرے کو تم لوگوں کے ہاتھ تھما دوں تاکہ تم لوگ ایک منٹ بھی دیر کیے بغیر ہم پر حملہ کر دو سب سے پہلے ہمارے ساتھی کو رہا کرواؤ اسے یہیں پڑھ لے کر آؤ اور ہمارے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کرو جیسے ہی ہم یہاں سے نکلیں گے ہم ان لڑکیوں کو بھی رہا کر دیں گے وہ آدمی ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کافی بدتمیزی سے بولا
عینا نے ایک نظر دانیال دوسری نظر اس آدمی کو دیکھا اور پھر گردن موڑ کر اپنے کچھ آفیسرز کو ایک اشارہ کیا یہ اشارہ آفیسرز فوراً سمجھ گئے تھے اس لیے بغیر اس آدمی کی نظروں میں آئے آہستہ آہستہ بلڈنگ کے پچھلی سائیڈ پر جانے لگے
ہیلو آفیسرز ان بچیوں کی ایگزیکٹ لوکیشن کیا ہے دانش نے اپنے کان میں لگی بلوٹوتھ سے اندر ان آدمیوں میں چھپے اپنے ایک آفیسر سے پوچھا
سر تھرڈ فلور سیکنڈ روم اندر موجود آفیسر ایک ترچھی نظر باقی آدمیوں کو دیکھتے ہوئے کافی ہلکی آواز میں بولا
دوسری جانب دانش نے اپنے آفیسرز کو اشارہ کیا اور سات سے آٹھ آفیسرز دانش کے ساتھ بلڈنگ میں داخل ہوئے کیونکہ آرمی فورس کی وہاں ریٹ ہو چکی تھی اس لیے بلڈنگ کے گیٹ پر سیکیورٹی کے لیے بھی وہاں پر کوئی موجود نہیں تھا کیونکہ سب ایک جگہ اکٹھے ہو چکے تھے اور اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دانیال اپنے آفیسرز کے ساتھ بلڈنگ میں داخل ہو چکا تھا
Ma’am we have entered the building and now we are standing in front of the third floor
دانش نے اپنے کان میں لگی بلوٹوتھ کے ذریعے عینا کو اطلاع دی
گڈ۔۔۔۔۔وہیں پر کھڑے رہو دیکھو تھرڈ فلور کے جس کمرے میں ان لڑکیوں کو بند کیا گیا ہے اس کمرے میں کوئی کھڑکی یا ونڈو ضرور ہوگی اس کے ذریعے اس کمرے میں داخل ہو جاؤ عینا دانیال کی طرف دیکھتی ہوئی بولی وہ یوں ظاہر کروا رہی تھی جیسے وہ دانیال سے بات کر رہی ہو کیونکہ وہ سامنے ہی کھڑے اس شخص کو شک نہیں ہونے دینا چاہتی تھی
اوکے میم یہاں پر ایک ونڈو ہے دانش نے اس کمرے کا معائنہ کرتے ہوئے عینا اطلاع دی اور پھر اپنے کچھ آفیسرز کو اشارہ کر کے اس ونڈو کو بغیر آواز کیے کھلوانے لگا
دانیال نے سوالیہ نظروں سے عینا کی طرف دیکھا جیسے ہی نظروں ہی نظروں میں پوچھ رہا ہو کہ اب کیا کرنا ہے تو عینا نے اپنی پلکیں چپکا کر اسے اشارہ دیا جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ ریلیکس کچھ نہیں ہوگا
رات کے تیسرے پہر جہاں رات کے تین بج رہے تھے وہاں میڈیا میں ہر طرف یہ بات پھیل چکی تھی کہ ان دہشت گردوں کا انکاؤنٹر کرنے کے لیے آرمی فورس اس جگہ پہنچ چکی ہے جہاں وہ دہشتگرد چھپے ہیں اور اب میڈیا کے کچھ ورکرز اسی علاقے میں موجود تھے اور آگے جانے کی بھرپور جدوجہد کر رہے تھے جبکہ کچھ آفیسرز ان کے راستے میں پہاڑ بن کر کھڑے تھے کیونکہ کسی کو بھی آگے جانے کی اجازت نہیں تھی مگر میڈیا ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ وہ آگے ہونے والی تمام کاروائی کو لوگوں تک پہنچا سکے
زرخان جو کچھ فاصلے پر اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا وہ با آسانی دیکھ سکتا تھا کہ اس کے کچھ فاصلے پر ایک پوری آرمی فورس اس بلڈنگ کو چاروں طرف سے گھیرے کھڑی ہے فاصلہ زیادہ تو نہیں تھا مگر کم بھی نہیں تھا مگر وہ آسانی سے دیکھ ضرور سکتا تھا لیکن ابھی تک عینا اس کی نظروں میں نہیں آئی تھی شاید وہ سب سے آگے کھڑی تھی اسی لیے اور آفیسرز کی بھیر ہونے کی وجہ سے اسے عینا یاں دانیال دکھائی نہیں دے رہے تھے جبکہ ان کی ہونے والی گفتگو وہ وہاں پر بیٹھا بھی سن رہا تھا